Tuesday, April 5, 2011

امید نو ۔


اپنی خوشیاں اور غم صرف اپنوں سے شیئر کریں مگر برداشت کیساتھ ۔ ایسا کريں گے تو مسیحا بننے کوئی دیر نہیں لگے گی ۔ اپنی جیلیسی اور ایرگنس کو کم کریں لیکن بالکل ہی ختم نہ کر بیٹھیں ۔ نہ تو کسی کی بتائی ہوئی عبادت میں مزا ہے اور نہ ہی کسی کے بتائے ہوئے لذت گناہ میں ۔ پھپھے کٹنیاں آپس میں لڑتی ہی رہیں گی اور ان کی لڑائی اب نورا کشتی نہیں ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

انسانوں کو ہنسی خوشی دوسروں کو برداشت کرنا ہوتا ہے جسمیں کوئی بھی بات اچھی یا بری نہیں ہوا کرتی ۔ کسی انسان کی اچھائی اور برائی اسی میں ہے کے دنیا کی جان اس انسان کی اچھائی اور برائی سے چھوٹ جائے ۔

2 comments:

یاسر خوامخواہ جاپانی said...

دیکھ لیں ہماری اعلی کوالٹی کی ظرفی صاحبہ کو گالیوں کا جواب نہایت تہذیب سے دیتے ہیں۔
لیکن لوگ پھر بھی باز نہیں آتے فحش قسم کے کبوتر اڑاتے ہیں۔

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

حقیقی مسیحائی بڑے دل گردے کا کام ہے .پہلے تو ایک پھوڑا پالنا پڑتا ہے پھر اس پھوڑے کی حفاظت جی جان سے کرنی پڑتی ہے اور اسکی اذیت سے لذت لینا سیکھنا پڑتا ہے جب آپ اذیت سے بے حال ہوتے ہیں تو دوسروں کو انتہائی خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں ...دوسروں سے تو کیا شیئر کریں گے خود سے بھی اسکی شکایات نہیں کرسکتے اتنا کچھ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کرحقیقی مسیحائی آتی ہے. میں نے کوشش کی مگر طبیعت سے مجبور ہو کر پیچھے ہٹ گیا مسیحائی تو کیا آنی تھی لوگن کی تکلیف بھی تب سمجھ میں آتی ہے جب خود اس تکلیف سے گزرتا ہوں .
یہ دنیا مجھے اس لئے نہ پسند ہے کہ یہاں خود کو منوانے کے لئے ١٠٠% خالص بننا پڑتا ہے ...اب خلوص کہاں سے لائیں ؟ ١٠٠ فیصد خالص تو الله والے ہی رہ گئے ہیں . وہی ہیں جو ١٠٠ فیصد کریشنسٹ ہیں ...ہم پر تو کریشنسٹ ہونے کی تہمت ہے خواہ مخواہ ....

Post a Comment