Monday, January 30, 2012

عوام، بادشاہ اور انکے سہارے ۔


عوام کا کام بادشاہوں کی مرضی پر چلنا اور بادشاہوں کا کام عوام کو اپنی مرضی پے چلانا ہے ۔ عوام نے اپنی مرضی کرنی نہیں بلکے بادشاہوں سے اپنی مرضی کروانی ہوتی ہے جبکے بادشاہوں نے عوام کو اپنی مرضی کرنے سے روکنے کے لئے عوام کی خاطر اپنی مرضی کی قربانی دینی ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں مزے عوام اور بادشاہوں کے اور خواری عوام اور بادشاہوں کے سہاروں کی ۔

عوام کا کام بادشاہوں کی مرضی پر اگر چلنا نہیں ہے تو پھر بادشاہوں کا کام بھی عوام کی خاطر اپنی مرضی کی قربانی دینا نہیں ہے ۔ عوام اپنی مرضی کرنا پہلے شروع کر دیں یا بادشاہ پہلے اپنی مرضی پہلے کرنا شروع کر دیں، دونوں کو اپنی مرضی کر گزرنے کیلئے سہارے مل جایا کرتے ہیں ۔ مزے سہاروں کے ہو جاتے ہیں مگر خواری عوام اور باشاہوں کی ہو جاتی ہے ۔

سہاروں کی اب مرضی ہے کے عوام کو آمریتی جمہوریت کے خواب دکھا کر بادشاہوں کی جمہوری آمریت کو دوام دیں یا عوام کو جمہوری آمریت کے خواب دکھا کر بادشاہوں کی آمریتی جمہوریت کو دوام دیں ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

عوام اور بادشاہوں کے سہارے بنیں جی ۔ بات بیستی والی ہے پر عوام اور بادشاہت میں بھی تو خواری ہے ۔

Tuesday, January 24, 2012

پرائیویسی: چسکے اور رزق کا لین دین ۔


لعنت اور پھٹکار کر کے چسکے لینے والے دوسروں کی پرائیویسی میں اپنے مخل کا ہونا پسند کرتے نظر آتے ہیں یعنی بلیک میلرز کے رزق میں لات مارتے ہیں ۔ مگر جب اپنے آپ کو ویسی ہی لعنت اور پھٹکار سے بچانے کیلئے اپنی پرائیویسی میں دوسروں کے مخل کا ہونا پسند نہیں کرتے ہیں تو بلیک میلرز کے رزق میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں ۔

بلیک میلنگ کر کے رزق حاصل کرنے والے دوسروں کی پرائیویسی میں اپنے مخل کا ہونا پسند نہیں کرتے نظر آتے ہیں یعنی لعنت اور پھٹکار کرنے والوں کے چسکے میں لات مارتے ہیں ۔ مگر جب اپنے آپ کو ویسی ہی بلیک میلنگ سے بچانے کیلئے اپنی پرائیویسی میں دوسروں کے مخل کا ہونا پسند کرتے ہیں تو لعنت اور پھٹکار کرنے والوں کے چسکے میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

پرائیویسی اپنی ہو تو چسکا اور رزق دوسروں کا اور جب پرائیویسی دوسروں کی ہو تو چسکا اور رزق ایک ساتھ ۔

Friday, January 20, 2012

کامپلیمنٹس کے کامپلیمنٹس ۔


کامپلیمنٹس کے کامپلیمنٹس، میتھس میں تو ضرور سنے ہونگے مگر ریئیلیٹی کے کامپلیمنٹس شائد کے نا سنے ہوں ۔

اپنی اخلاقی اخلاقیات کو اخلاقی اخلاقیات منوا تو لیا گیا تھا لیکن ثابت وہ غیر(اخلاقی اخلاقیات) یعنی غیر اخلاقی اخلاقیات ہی ہو پائیں ہیں جبکے دوسروں کی اخلاقی اخلاقیات کو غیر اخلاقی اخلاقیات منوا تو لیا گیا تھا لیکن ثابت وہ غیر(غیر اخلاقی اخلاقیات) یعنی اخلاقی اخلاقیات ہی ہو پائیں ہیں ۔ دوسروں کی غیر اخلاقی اخلاقیات کو غیراخلاقی اخلاقیات منوا تو لیا گیا تھا لیکن ثابت وہ غیر(غیر اخلاقی اخلاقیات) یعنی اخلاقی اخلاقیات ہی ہو پائیں ہیں جبکے اپنی غیر اخلاقی اخلاقیات کو غیر اخلاقی اخلاقیات منوا تو لیا گیا تھا لیکن ثابت وہ غیر(غیر اخلاقی اخلاقیات) یعنی اخلاقی اخلاقیات ہی ہو پائیں ہیں ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

زرا محسوس کر کے تو دیکھیں، کامپلیمنٹس کے کامپلیمنٹس روشن ہوگئے کے نہیں ؟

Sunday, January 15, 2012

کمظرفی کا سواد ۔


جیسے اپنی خوشی کو خود ہی اپنا غم بنانا اور پھر اسکا قصوروار کسی اور کو قرار دینا ایک نارمل انسانی رویے کی نشانی ہے ۔ ویسے ہی اپنے غم کو خود سے اپنی خوشی بنانا اور پھر اسکو کسی اور کی خوشی قرار دینا بھی ایک نارمل انسانی رویے کی نشانی ہے ۔ کمظرفی، ان نارمل رویوں کو اپنے لئے تو نہیں مگر دوسروں کے لئے لازمی سمجھنا ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

کمظرف ہوتے ہوئے کسی دوسرے کمظرف کو کمظرف کہنا واقعی سواد لینا ہوا کرتا ہے ۔

Thursday, January 12, 2012

آمریت اور جمہوریت کا تسلسل ۔


عوام کو ہمیشہ ہی ہیروز اور انکی باقیاتی لیڈروں سے امیدیں رہی ہیں اور عوام کی امیدوں کبھی پوری بھی نہیں ہوئی ہیں ۔ امیدیں تو ان ہیروز کو ہوا کرتی ہیں جو عوام کی مدد سے عوام ہی کو زبردستی بیوقوف بنا سکنے کی طاقت اور اختیار رکھنے والوں انسانوں کی ایک نئی قسم کے بیوقوف انسان بنانے کی سوچ رہے ہوتے ہیں ۔ جبکے اصل لیڈر تو وہ ہوتے ہیں جو ان بیوقوف انسانوں کو مزید بیوقوف بنا سکیں جو عوام کو زبردستی بیوقوف بنا سکنے کی طاقت اور اختیار رکھتے ہیں ۔

تاریخ میں آج تک ایسا نظام سامنے نہیں آیا جسے عوام نے واقعی اپنی مرضی اور خوشی سے بنایا ہو ۔ ایسے نظام کو چلانے والوں کو منتخب کیا ہو اور پھر اس نظام کو اور اسے چلانے والوں کو پروٹیکٹ بھی کیا ہو ۔ جب سبھی کسی ایک واضع اخلاقی دائرے میں کام کر رہے ہوں تو نا ان پر حکومت کی جا سکتی ہے اور نا ہی کسی کو حکومت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حکومت کو ضروری قرار دینے کیلئے ایسے سسٹمز کو ہی ڈیویلوپ کیا جاتا ہے جو عام کو سرو کرنے کے نام پر خواص کو ہی سرو کیا کریں ۔

جب رائٹ کا انڈیکیٹر دے کر لیفٹ کو مڑنا یا لیفٹ کا انڈیکیٹر دے کر رائٹ کو مڑنا جائز بھی قرار دینا ہو تو ایسے سسٹمز کو پروٹیکٹ اور فردر ڈیویلپ کرنے کیلئے جس قسم کی دانشمندیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ عوام کیلئے تیار کی گئی ٹیکسٹ بکس میں واضع طور پر لکھی بھی نہیں جاتیں ۔ ڈنڈے چلا کر آمریتیں آئیں اور انہوں نے خواب بھی دکھائے مگر عوام کو خوش نہیں رکھ سکے ۔ خواب دکھا کر جمہوریتیں آئیں اور انہوں نے ڈنڈے بھی چلائے مگر عوام کو خوش نہیں رکھ سکے ۔

جو قومیں ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہوں اور دوسری قوموں کا استحصال کر کے اپنی قوم کی فلاح و بہبود بھی کر رہی ہوں وہاں آمریت بھی اخلاقی جمہوریت کہلا سکتی ہے اور جمہوریت بھی اخلاقی آمریت کہلا سکتی ہے ۔ ایسی آمریتوں یا جمہوریتوں کو عوام کی بجائے دوسری قوموں سے خطرات ہوا کرتے ہیں ۔ ان خطرات سے نپٹنے کیلئے جو محافظ رکھنے پڑا کرتے ہیں وہ قوم پر بوجھ بھی نہیں ہوتے ہیں اور حکومت کرنے والوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں ۔

اور جو قومیں تنزلی کی راہ پر بھی گامزن ہوں اور دوسری قوموں کی فلاح کر کے اپنی قوم کا استحصال بھی کر رہی ہوں وہاں آمریت بھی غیر اخلاقی جمہوری آمریت ہی ہو سکتی ہے اور جمہوریت بھی غیر اخلاقی آمریتی جمہوریت ہی ہو سکتی ہے ۔ ایسی آمریتوں یا جمہوریتوں کو دوسری قوموں کی بجائے عوام سے خطرات ہوا کرتے ہیں ۔ ان خطرات سے نپٹنے کیلئے جو محافظ رکھنے پڑتے ہیں وہ قوم پر بوجھ بھی ہوتے ہیں اور حکومت کرنے والوں کی حفاظت بھی نہیں کرتے ہیں ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

رزق دینے کے نام پر آزادیاں چھین لینا ایک غیر اخلاقی آمریت اور آزادیاں دینے کے نام پر رزق چھین لینا ایک غیر اخلاقی جمہوریت کا کمال ہوتا ہے اور ایسا کسی غیر اخلاقی قوم کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے ۔

Wednesday, January 11, 2012

آمریت اور جمہوریت ۔


جب اخلاقی آمریت کا ایک دور اچھا گزر جائے تو لوگ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کے آمریت چاہے جیسی بھی ہو اور کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہو اس میں بہتری ہی ہوتی ہے ۔ یہ بات دنیا نے تسلیم کرلی ہے کے جمہوریت کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اس کے نتائج بھیانک ہی نکلتے ہیں ۔ جو آج ہم سب بھگت رہے ہیں ۔ ایک نئی اخلاقی آمریت اور کچھ عرصے کو اس کا تسلسل ہی ایک نئی اخلاقی جمہوریت کو جنم دیتا اور پروان چڑھاتا ہے ۔ اور جب اخلاقی جمہوریت کا ایک دور اچھا گزر جائے تو لوگ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کے جمہوریت چاہے جیسی بھی ہو اور کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہو اس میں بہتری ہی ہوتی ہے ۔ یہ بات دنیا نے تسلیم کرلی ہے کے آمریت کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اس کے نتائج بھیانک ہی نکلتے ہیں ۔ جو آج ہم سب بھگت رہے ہیں ۔

یہی اخلاقی جمہوریت وقت گزرنے کے ساتھ غیر اخلاقی ہوتی چلی جاتی ہے ۔ سائیکلز اس وقت شروع ہو جاتے ہیں جب ایک غیر اخلاقی جمہوریت کو ایک غیر اخلاقی آمریت ریپلیس کرتی ہے اور یہ غیر اخلاقی آمریت ایک مزید غیر اخلاقی جمہوریت سے ریپلیس ہو جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کے بعد ایک نئی اخلاقی آمریت کے آ جانے پر دوبارا سے شروع ہو جایا کرتا ہے ۔ یہ دنیا پہلی دفعہ ایسے دور سے گزر رہی ہے جب ایک نئی اخلاقی آمریت کے آ جانے کے امکانات بالکل ہی ختم ہو گئے ہیں ۔ اب تو بس غیر اخلاقی ہی چلے گی بھلے ہی وہ غیر اخلاقی جمہوری آمریت ہو یا وہ غیر اخلاقی آمریتی جمہوریت ہو کیونکے غیر اخلاقی جمہوریت بھی آمریتی جمہوریت بن سکتی ہے اور غیر اخلاقی آمریت بھی جمہوری آمریت بن سکتی ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

غیر اخلاقی آمریت ہی جمہوری آمریت ہوتے ہوئے جمہوریت کہلا سکتی ہے ۔ جبکے غیر اخلاقی جمہوریت نے آمریتی جمہوریت بن بھی آمریت ہی کہلوانا ہوتا ہے ۔

Thursday, January 5, 2012

مجرم | ملزم اور ہیرو | ولن ۔


سنا ہے کے ملزم وہ انسان ہوتا ہے جو سسٹم کو ڈیسٹیبلائز کرنے کی کوشش کے الزام کے بعد سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور انسانوں کی فہم کے مطابق سزا ملے بغیر اپنی سزا کاٹنے کا بطور ہیرو ایک خوشگوار سا یا بطور ولن ایک ناخوشگوار سا انتظار کر رہا ہوتا ہے ۔ جبکے سابقہ ملزم وہ انسان ہوتا ہے جو سسٹم کو ڈیسٹیبلائز کرنے کی کوشش کے الزام کے بعد سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور پرانے انسانوں کی فہم کے مطابق ہیرو قرار پا چکا ہوتا ہے مگر سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور نئے انسانوں کی فہم کے مطابق کسی وقت بھی ولن قرار دیا جاسکتا ہے ۔

مجرم وہ انسان ہوتا ہے جو سسٹم کو ڈیسٹیبلائز کرنے کی کوشش کے الزام کے بعد سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور انسانوں کی فہم کے مطابق بطور ولن اپنی سزا کاٹ رہا ہوتا ہے ۔ جبکے سابقہ مجرم وہ انسان ہوتا ہے جو سسٹم کو ڈیسٹیبلائز کرنے کی کوشش کے الزام کے بعد سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور پرانے انسانوں کی فہم کے مطابق بطور ولن اپنی سزا کاٹ چکا ہوتا ہے مگر سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور نئے انسانوں کی فہم کے مطابق کسی وقت بھی ہیرو قرار دیا جاسکتا ہے ۔

سابقہ مجرم کے چاہنے والے اسکی زندگی میں ہی یا اسکے مرنے کے بعد اسے ایک نئے ہیرو کا درجہ دیتے ہوئے سسٹم کو کچھ دیر کیلئے ڈیسٹیبلائز کرنے کے بعد سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور نئے انسانوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ اس نئے ہیرو جو کے سابقہ مجرم تھا کو نا چاہنے والے ایک ملزم، جو کے بطور ولن ایک ناخوشگوار سا انتظار کرتا رہا ہو، کو بطور نیا ہیرو سامنے لا کر سسٹم کو کچھ دیر کیلئے ڈیسٹیبلائز کرنے کے بعد سسٹم کو سٹیبلائزڈ فارم میں رکھنے پر مامور نئے انسانوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

ایک ملزم جو بطور ولن ایک ناخوشگوار انتظار کے بعد تاحیات ہیرو رہے، اسکو مرنے کے بعد تو کسی وقت بھی بڑے سے بڑا ولن قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس سے بڑا نیا ہیرو نہیں لایا جا سکتا ۔