Thursday, March 3, 2011

دی سٹوری اینڈز ۔


کائینات کے مکمل خاتمے کے بعد کائینات کی رجینیریشن تو تقریبا جنتوں تک کو ختم کرنے والی بات بن گئی نا ۔ ہماری ناقص عقل میں تو کائینات میں اگر کہیں کسی بھی فارم میں لائف ہے تو وہ جنت اور جہنموں جیسی ہی جگہیں ہی ہونگیں ۔

اگر بگ بینگ کے اپوزٹ نے ہونا ہی ہے تو کیوں نہ تمام جنتیں ایک دوسرے کے قریب آجائیں اور اسوقت تک دنیا بھی جنت بن جائے ۔ ایسی صورت میں کائینات کے سکڑنے کا رک جانا بھی کوئی قابل اعتراض نہیں ہونا چاہيئے نا ۔

جب تک دنیا نے جنت بننا ہے اس وقت تک تمام جہنموں میں عذاب بھی ختم ہو چکا ہوگا اور اس دنیا سے کوئی جانے والا بھی نہ ہوگا ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

شائد کے دنیا کو جنت نہ بننے دینے والوں کو جہنم سے جنت میں جا کے بھی سکون نہ پانے کی خواہش ہو ۔ دنیا کی طرح اب جنتوں میں بھی بھولوں اور بھولیوں نے نہیں ہونا ۔ ایوولیوشنسٹس اور کریئیشنسٹس کو دنیا کی طرح جنتوں میں بھی کسی نے بودر نہیں کرنا ۔ پس جو جنت میں نہیں جانا چاہتے انکے لیئے دنیا بھی جہنم ہو گی اور دنیا سے باہر کی جنتیں بھی ۔ ( اڈییپٹیشن ایز سجیسٹڈ بائی ڈاکٹر جواد خان ) ۔

7 comments:

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

کہتے ہیں کہ ہماری کائنات میں زندگی کی ابتدا بگ بینگ سے ہوئی تھی اور مادّہ کائنات میں پھیل گیا تو کوئی عجب نہیں کہ اسکا اختتام اس پھیلاؤ کا معکوس ہو اور کائنات میں پھیلا مادّہ ایک دوسرے کے قریب آجاتے. ویسے بھی قیامت کی تصویر کشی میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ سورج سوا نیزے پر ہوگا. تو ان معنوں میں آپکی یہ بات نہایت عمدہ ہے.
دوزخ سے تمام جہنمیوں کے باہر آنے پر اختلاف ہے.

عنیقہ ناز said...

سائینس کے مطابق اس وقت کائینات مسلسل پھیل رہی ہے۔ جہاں تک جنت اور دوزخ کا معاملہ ہے۔ غالب نے کہا کہ دل کے بہلانے کو اچھا خیال ہے۔ یہاں تو برے خیالات کی روانی اتنی ہے کہ اچھے خیال کو گھسنے کی فرصت نہیں۔ دل کے پاس سو طرح کے جھمیلے ہیں یوں اسے بہلانے کو بھی خیال نہیں آتا۔
حوروں سے کیا غرض تھی، عبث بدگمان ہو
جنت میں لے گئ تیری محفل کی آرزو
وتایو فقیر نے کہا تھآ کہ ہر انسان اپنی آگ اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے دوزخ میں آگ نہیں۔ جنت میں بھی شاید سکون نہیں ہر جنتی اپنے حصے کا سکون دنیا سے ہی لے کر جاتا ہے۔ یوں شاید جنت اور دوزخ پہلے سے تیار نہیں بلکہ ہم جا کر انہیں جنت اور دوزخ بنائیں گے۔
خیر ، یہ سب صوفی کی باتیں ہیں، سائیسنداں بھی ایک صوفی ہی ہوتا ہے۔ شریعت کے دعویدار کچھ اور کہتے ہیں۔

ڈاکٹر جواد احمد خان said...
This comment has been removed by the author.
ڈاکٹر جواد احمد خان said...
This comment has been removed by the author.
ڈاکٹر جواد احمد خان said...

وتایو فقیر میں ایک معنوی بات کی تھی جس سے اسکی مراد انسان کا اس دنیا میں عمل اور آخرت میں اسکے نتائج تھی . یقینی طور یہاں جنت اور دوزخ کا انکار نہیں.
مجھے ہمیشہ سے یہ تجسس رہا ہے کہ ایوولوشنسٹ بلکہ بہت سارے دین بیزار صوفی کی طرف اتنا میلان کیوں رکھتے ہیں...شید اسکی وجہ وہ نشئی ملنگ ہیں جو ہر مزار پر پائے جاتے ہیں جنہیں بہت ہوشیاری کے ساتھ صوفی کا نام دے دیا گیا ہے یا شاید اسکی وجہ وہ طبقہ ہے جو دین کے صرف ایک جز کو قبول کرتا ہے اور باقی کو غیر اعلانیہ طور پر رد کردیتا ہے. اس طبقہ کو ہر کوئی پسند کرتا ہے چاہے وہ پرویز مشرف جیسا پتلون ہی کیوں نہ ہو.اور تو اور رانڈ کارپوریشن کی شیرل بینارڈ (زوجہ خلیل زلمے زاد ) بھی اپنے ریسرچ پیپر " سول اینڈ ڈیموکریٹک اسلام - پارٹنرز، ریسورسز اینڈ سٹریٹجیز " میں صوفی ازم کے فروغ کا مشورہ دیتی پائی جاتی ہیں ...یا للعجب

عنیقہ ناز said...

ڈاکٹر صاحب کی اس بات پہ صرف اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ یہ انکی طبیعت کی سختی اور انتہا پسندی ہے جو انہوں نے صوفی ازم کو شیرل بینارڈ تک محدود کر دیا ہے۔ یہاں مولانا رومی کے ساتھ جنید بغدادی جیسے جید علماء بھی کھڑے ہیں۔
انہوں نے مذہب بیزار لوگوں کا التفات صوفیوں کی طرف ظاہر کیا ہے۔ انہیں اسلام میں صوفی ازم کے آغاز کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔
میں نہ مزاروں پہ جانے کی شوقین ہوں نہ باباءوں کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہوں ، نہ منت مراد سے تعلق رکھتی ہوں، نہ کسی کے ہاتھ پہ بیعت ہوں۔ مگر اس بات پہ یقین رکھتی ہوں کہ صوفی ازم کی تحریک، علمائے ظاہر کے خلاف بغاوت کی تحریک تھی اور ہے۔ یوں ہر باغی ان صوفیوں کی طرف ملتفت ہوتا ہے۔ یوں بلھے شاہ کہتا ہے کہ
ارے ملا جنازہ پڑھ، میں جانوں میرا خدا جانے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلھے شاہ کا زمانہ مشرف اور دیگر ایولوشنسٹ سے پہلے کا ہے۔ بلھے شاہ نے یہ ترانہ امریکہ کے ایماء پہ القاعدہ کے خلاف نہیں گایا ہوگا۔

ڈاکٹر جواد احمد خان said...

ارے بھائی ج ج س !
آپ کیوں اپنے بلاگ پر دماغ کا دنگل کرانے کے خواہش مند ہیں؟
بات سیدھی سی ہے. ایک گناہ گارمگر پختہ عقیدہ کے حامل مسلم کی حثیت سے میں اس بات کا مسئول ہوں کہ قرآن و حدیث پر ایمان رکھوں اور انہیں حرف آخر سمجھوں بس یہی فرق ہے کریشنسٹ اور ایوولوشنسٹ میں ....ایوولوشنسٹ چونکہ عقل پرست ہوتا ہے لہٰذا بہت ساری چیزوں کا انکار کر دیتا ہے چاہے زبان سے کہے یا نہ کہے ...لیکن ابھی تک میں ایوولوشنسٹ کی اس نئی محبت کو سمجھنے سے قاصر ہوں جو اسے صوفی سے ہوئی ہے...
میں بضد ہوں کہ جو دین ہم تک پہنچا ہے اسکے نصوص میں تبدیلی نہ ممکن ہے. عنیقہ ناز صاحبہ کا اصرار ہے کہ جدید تہذیب میں ١٤٠٠ سال پرانے اصولوں کی کوئی گنجائش نہیں. یہ جہاد، نفاز شریعت اور نفاذ اسلام کی باتیں بند ہونی چاہییں اور روا داری اور برداشت کو فروغ ملنا چاہیے اتنا زیادہ کہ آپکے سامنے اگرمعاذ الله رسول الله کی توہین بھی ہو تو بھی آپکو صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے. ظاہر ہے یہ چیزیں مجھہ سمیت بہت سارے بلکہ غالب اکثریت کے لئے ناقابل قبول ہیں اسی لئے جدید تہذیب کے مطابق مجھے بڑی آسانی سے انتہا پسند قرار دیا جاسکتا ہے اور مجھے اس پر کوئی ایسا خاص اعتراض بھی نہیں.
حضرت جنید بغدادی رح تو اس بات کے ہی قائل نہیں تھے کہ تصوف کی تعلیم عام لوگوں کے لئے ہونی چاہیے اپنے شاگردوں کو پہلے دین کی تعلیم مکمل کرنے کا حکم دیتے تھے پھر صفائی قلب اور تزکیہ نفس کے طریقے سکھاتے تھے . اورانکا یہ کہنا سنہری حرفوں سے لکھ جانے کا حقدار ہے کہ اگر تم دیکھو کہ ایک آدمی ہوا میں اڑتا ہوا یا پانی پر چلتا ہوا آرہا ہے اور خلاف شرع کوئی حرکت کرے تو اسکو جوتے لگاؤ کیونکہ ہوا میں تو مکھی بھی اڑتی ہے اور پانی پر تنکا بھی تیرتا ہے انسان کا اصل کمال شریعت کی پابندی ہے خرق عادات نہیں. شیخ عبد القادر جیلانی ہوں یا حضرت علی ہجویری صاحب کبھی بھی کسی نے احکام الہی سے صرف نظر کرنے کی گنجائش نہیں نکالی یہ کمال تو دنیا پرست جہلا کا تھا جنہوں نے صوفی ازم کا چولہ اوڑھ لیا اور دین کی تعلیمات کو عشق حقیقی اور عشق رسول کے نام پر مسخ کر کے رکھ دیا ....
اب سمجھ نہیں آتا کہ دین کے وہ احکامات جن کی کوئی منطق ہے جن پر عمل کا کوئی لازمی نتیجہ انھیں تواس بنیاد پر ترک کردیا جائے کہ جناب موجودہ دور میں ان باتوں کی کوئی گنجائش نہیں اور صوفی کی بکواس اور لا یعنی باتوں پر سر دھنا جائے ....میں واقعی اس محبت کو نہیں سمجھ سکا...
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

Post a Comment