Monday, February 21, 2011

مسیحا اور ہیرو ۔


مسیحا بالکل عام سے انسان ہوا کرتے ہیں اور عام انسانوں کے جیسی ہی زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جائیا کرتے ہیں ۔ یہ عام سے انسان اپنی لالچ کو اپنی ضرورت اور دوسرے انسانوں کی ویسی ہی ضرورت کو لالچ نہیں کہا کرتے ۔ نہ ہی وہ اپنے پرسنل گینز کیلئے ایسے قوانین کی بات کرتے ہیں جن کے بدولت انکی سوپیرئیوریٹی کیلیئے گنجائش نکل آیا کرے ۔

ہیروز خاص انسان ہوا کرتے ہیں اور خاص انسانوں کی طرح زندگی گزارا کرتے ہیں ۔ ہیروز کی پرستش انسان اپنی سوپیرئیوریٹی واضع کرنے اور پرسنل گینز حاصل کرنے کیلئے کیا کرتے ہیں ۔ ہیروز کی ہیروئکس انسانوں کو اپنی لالچ کو اپنی ضرورت کہنے اور دوسرے انسانوں کی ویسی ہی ضرورت کو لالچ ڈکلیئر کرنے میں مددگار ثابت ہوا کرتی ہیں ۔

ہم کو منزل نہیں بلکہ راہنما چاہیے کا نعرہ تو کسی راہنما کو مسیحا سے ہیرو بنانے والے ہی لگایا کرتے ہیں ۔ راہنما کو منزل نہ ملی ہو تو اسکو راہنما ماننا بھی کس نے ہوا کرتا ہے جی ۔ ہسٹری میں بہرحال ایسے انسانوں کو بھی پہلے راہنما اور مسیحا مانا گیا اور پھر ہیرو کا سٹیٹس دے دیا گیا جنہیں منزل نہیں بھی ملی ۔

جنہیں منزل ملی ان میں سے کچھ راہنماؤں نے تو اپنی زندگی میں ہی اپنے آپ کو مسیحا سے ہیرو بنا کے دکھایا ۔ اور جن راہنماؤں نے ایسا نہیں کیا انہیں انکے مرنے کے بعد اسی نعرے کے زور پر مسیحا سے ہیرو بنا دیا گیا ۔ بہتر نہیں کے راہنما اپنی زندگی میں ہی مسیحا سے ہیرو بن جائیا کریں ؟

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

1 comments:

وقاراعظم said...

مسیحا اور ہیرو کا فرق خوب بیان کیا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ ہیرو بننے کے لیے مسیحا ہونا ضروری ہے اور یہ کہ ہیروز خاص لوگ ہوتے ہیں، حالانکہ ہماری اسلام تاریخ میں بہت سے ہیروز گذرے ہیں جن کا لائف اسٹائل عام ہی تھا لیکن ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ مسیحا نہ ہونے کے باوجود کسی کو ہیرو بنانے کی کوشش کی جائے بقول شاعر:
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

Post a Comment