Tuesday, June 26, 2012

شکاری | شکار کا | کے شکار | شکاری ۔



منپسند خدا اور اسکی منپسند خدائی ۔

سنا ہے کے توبا کرنے والے انسان کے گناہوں کو معاف کرنا اسکے منپسند خدا زمے ہے جبکے اسکے ناجائز مال کو جائز قرار دینا اسکے منپسند خدا کی منپسند خدائی کے زمے ہے ۔ منپسند خدا تو اپنی منپسند خدائی کے گناہ معاف کرنے میں شرمائے گا ہی مگر ایسے خدا کی منپسند خدائی تو ایک دوسرے کے ناجائز مال کو جائز قرار دینے میں ضرور ڈھیٹائی دکھائے گی ۔

ڈیھٹائی کو منپسند بناسپتی میں تلیں اور پھر اسکے شرمانے سے لطف اندوز ہوں جی، نہیں تو پھر شرم کو منپسند بناسپتی میں تلیں اور پھر اسکی ڈھیٹائی سے لطف اندوز ہوں ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

خدا کی منپسند خدائی بھی نا شرمائے اور خدائی کا منپسند خدا بھی ڈھیٹائی دکھائے ۔


پبلشڈ اون بیس بارہ ۔ جون بارہ ۔ ایٹ اردو تحاریر، الکمونیا، اور فیسبک ۔



انقلاب یا تبدیلی اور یوٹوپیا ۔

ہر نئے انقلاب نے بھی ایک نئے ہی گٹھ جوڑ کو ہی جنم دیا ہے ۔ انقلاب کو انقلاب کہلواتے رہنے کیلئے بھی وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو انقلاب کے آنے سے پہلے انقلاب کو آنے سے روکنے والے کر رہے ہوتے ہیں ۔ تبدیلی تو مسلسل تبدیلی کا نام ہی ہو سکتا ہے اور وہ تبدیلی ہی کیا جسکے بعد تبدیلی کو ہونے سے روکتے رہنے کے لئے انقلابوں کو لاتے رہنے کی ضرورت پڑتی رہے ۔ تبدیلیوں نے بھی آتے رہنا ہے اور انقلابوں نے بھی تبدیلیوں کو روکنے کیلئے آتے رہنا ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

تبدیلیوں نے ایسے یوٹوپیئے کو لانا ہے جو یوٹوپیا نہیں ہوگا اور انقلاب نے ایسے یوٹوپیئے کو لانا ہے جو یوٹوپیا نہیں تھا ۔


پبلشڈ اون بیس بارہ ۔ جون تیرہ ۔ ایٹ اردو تحاریر، القلم، الکمونیا، اور فیسبک ۔



زلت بھری زندگی اور منپسند قیامت ۔

ہر کسی کو صرف اپنی زندگی ہی منپسند زندگی جبکے دوسروں کی زندگی ہی زلت بھری زندگی محسوس ہوا کرتی ہے ۔ جسے اپنی زندگی منپسند زندگی لگے اسے تو اصولا دوسروں کی منپسند زندگی کو زلت بھری زندگی محسوس نہیں کرنا چاہیئے ۔ ایسا نا ہونے کی ایک وجہ اپنی زلت بھری زندگی کو منپسند زندگی سمجھنا بھی ہو سکتا ہے جسکی وجہ سے اسے دوسروں کی منپسند زندگی ایک زلت بھری زندگی محسوس ہونا شروع ہو جائے ۔

جسے اپنی منپسند زندگی ایک زلت بھری زندگی محسوس نہیں ہوتی ہوگی وہ دوسروں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کی مسلسل کوششیں کرتا رہتا ہوگا ۔ جب ایسا کرلینے میں کامیابی نہیں ہو پاتی ہوگی تو پھر اسے دوسروں کی زلت بھری آفٹر لائف کیلئے منپسند قیامت کے خواب آنا شروع ہو جاتے ہونگے ۔ ایسا آسانی سے محسوس کرلینے کیلئے تو سند یافتہ لٹریچر سے خوف اور لالچ سے بھر پور بڑی ہی پر اثر کہانیاں بھی مل جائیا کرتی ہونگیں ۔

دوسری وجہ کسی کی منپسند زندگی کو زلت آمیز زندگی نا سمجھنا بھی ہو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں انسان ایک زلت بھری زندگی کو اپنے لیئے منسپسند زندگی سمجھ کر گزارنے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہوگا ۔ جب اپنی منپسند زندگی حاصل کرلینے میں کامیاب ہو جاتا ہوگا تو پھر دوسرے انسانوں کو اپنی منپسند زندگی کے جیسی زندگی کو حاصل کر سکنے سے روکنے کیلئے اپنی منپسند زندگی کو دوسروں کیلئے اپنی منپسند قیامت بنا دینے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوگا ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

منپسند قیامت کی خواب دیکھنے سے بہتر ہے کے اپنی اور دوسروں کی منپسند زندگی کو زلت بھری زندگی نا سمجھا جائے ۔


پبلشڈ اون بیس بارہ ۔ جون بیس ۔ ایٹ اردو تحاریر، القلم، الکمونیا، اور فیسبک ۔



خیر و شر اور کولیٹورل ڈیمیج ۔

خیر و شر کے تسلسل کے لئے ضروری ہوتا ہے کے برے انسان اچھے انسان پیدا کرتے رہیں اور اچھے انسان برے انسان پیدا کرتے رہیں ۔ خیر کا تسلسل صرف اسی صورت میں ہے کے اچھے انسان بھی اچھے انسان پیدا کیا کریں اور برے انسان بھی اچھے انسان ہی پیدا کیا کریں ۔ جبکے شر کا تسلسل اس صرف اسی صورت میں ہے کے اچھے انسان بھی برے انسان پیدا کیا کریں اور برے انسان بھی برے انسان ہی پیدا کیا کریں ۔ اگر اچھے انسان صرف اچھے انسان اور برے انسان صرف برے انسان پیدا کرنا شروع کردیں تو خیر اور شر کا تصادم ہوتا رہے گا ۔

ریئیلیٹی میں تو سبھی انسان خیر یا شر کے مکمل حمائیتی نہیں ہو سکتے جبکے خیر و شر کا مسلسل تصادم تو مناسب بھی نہیں ہوا کرتا ۔ مزید یہ کے اس تصادم سے ذیادہ تر کولیٹرل ڈیمیج ہی ہوتا رہا کرتا ہے ۔ سوال یہ ہے کے کولیٹورل ڈیمیج کو غیر مناسب سمجھنے والے بھی خیر و شر کے تصادم کو کیوں ضروری اور کولیٹورل ڈیمیج کو مجبوری سمجھتے رہتے ہونگے ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو کے برے انسان پیدا تو اچھے انسان کریں مگر انہیں اچھے انسان سمجھا جائے اور جبکے اچھے انسان پیدا تو برے انسان کریں مگر انہیں برے انسان سمجھا جائے ۔

کولیٹورل ڈیمیج کی زد میں بھی وہی انسان آتے ہونگے جو یا تو صرف خیر کا تسلسل چاہتے ہونگے یا پھر صرف شر کا تسلسل چاہتے ہونگے ۔ ایسے انسانوں کو تو ایسا کرنے سے تو روکا نہیں جا سکتا کیونکے یہی انسان ہی تو خیر اور شر کا تصادم چاہتے ہیں ۔ اچھے انسان جو کے برے ہونگے تو وہ برے انسانوں سے تصادم نہیں چاہینگے اور برے انسان جو کے اچھے ہونگے وہ اچھے انسانوں سے تصادم نہیں چاہینگے ۔ کولیٹورل ڈیمیج کی زد میں آنے والوں کی ڈیٹرمینیشن کے باعث اب تو وہ انسان بھی کولیٹورل ڈیمیج کا شکار ہونا شروع ہوگئے ہیں جنکے خیال میں کولیٹورل ڈیمیج جائز بات ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

خیر و شر کا تصادم چاہنے والوں کی خاطر اچھے انسان مزید اچھے نہیں ہو سکتے اور برے انسان مزید برے نہیں ہو سکتے ۔


پبلشڈ اون بیس بارہ ۔ جون بائیس ۔ ایٹ اردو تحاریر، القلم، الکمونیا، اور فیسبک ۔



سکندر یا قلندر قسم کی مقدس گائے ۔

دوسرے انسان سے اپنی منافقت بھری عقیدت یا زلالت بھری محبت کے اظہار کیلئے اپنی منپسند مقدس گائے کا ہونا ضروری ہے ۔ جبکے کسی بھی بہانے دوسروں انسانوں کو اپنے آپ سے کمتر سمجھنے کیلئے اپنے آپ کو بھی مقدس گائے سمجھنا ضروری ہوا کرتا ہے ۔ جنرلی تو اپنے آپ کو مقدس گائے سمجھنے کیلئے کسی دوسرے انسان کو ہی اپنی مقدس گائے مان کر اس مقدس گائے کی مقدس گائے بننے کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔

پارٹیکیولرلی کوئی انسان خود بھی اپنے لئے مقدس گائے ہوسکتا ہے مگر اس بات سے تو تسکین بالکل بھی حاصل نہیں ہوا کر پاتی ۔ تسکین کو حاصل کر پانے کیلئے پہلے تو انسان کو قلندر | سکندر بن کر دوسرے انسانوں کو اپنی منپسند مقدس گائے بنانا پڑا کرتا ہے ۔ اس کامیابی کے بعد وہ اپنی مقدس گائیوں کی مدد سے ہی اپنی مقدس گائیوں کی مقدس گائے یعنی سکندر | قلندر بننے میں کامیاب ہو جائیا کرتا ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

مقدس گائے بننے کیلئے ضروری ہے کے سکندر بن کر اپنے آپ کو قلندر محسوس کروایا جائے یا پھر قلندر بن کر اپنے آپ کو سکندر محسوس کروایا جائے ۔


پبلشڈ اون بیس بارہ ۔ جون اکیس ۔ ایٹ اردو تحاریر، القلم، الکمونیا، اور فیسبک ۔



عوام کی حفاظت کا زمہ لیکر عوام سے خدمت کرانا ۔

محافظوں کا کام عوام کی حفاظت کرنا نہیں ہوتا ہے بلکے اپنی خدمت کرانا ہوتا ہے ۔ عوام جب تک اپنے محافظوں کی خدمت کرتی رہتی ہے اس وقت تک اپنے محافظوں سے محفوظ رہتی ہیں ۔ محافظوں کا کام جرم کو ایکسٹنکٹ ہونے سے بچانے کیلئے جرم کو عوام سے محفوظ رکھنا ہے ۔ جو کے انتہائی ضروری کام ہے اور اپنے اس جرم کا جو پتا نا لگنے دیں وہی محافظ کہلوانے کی حقدار ہوا کرتے ہیں ۔

محافظوں کیلئے عوام سے اپنی خدمت کروانے کیلئے عوام کو آپس میں لڑوانا اور ایک مشترکہ دشمن کا ہونا ضروری ہے ۔ محافظوں کیلئے مشترکہ دشمن دستیاب نا ہو تو پھر بیچارے عوام کیلئے خدمات پیش کرنا مشکل ہو جائیا کرتا ہے ۔ جب عوام اپنے محافظوں کی خدمت کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں تو پھر محافظوں کو عوام کی خدمت کرنے کا موقع ڈنڈے سے تواضع کرلینے کی صورت میں مل جاتا ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

محافظ بن کے ہی اپنے جرم کو جرم نا سمجھیں ۔ عوام اگر خدمت نا کریں تو پھر انکی تواضع ڈنڈوں سے کریں ۔


پبلشڈ اون بیس بارہ ۔ جون پچیس ۔ ایٹ اردو تحاریر، القلم، الکمونیا، اور فیسبک ۔


0 comments:

Post a Comment