Monday, June 4, 2012

بھیڑیں اور بھیڑئے ۔


ہر انسان میں بھیڑیا بھی ہوتا ہے اور بھیڑ بھی ۔ ذیادہ تر انسان بھیڑ کی طرح رہنا چاہتے تھے اور بھیڑیوں سے اپنی حفاظت کروانا چاہتے تھے ۔ بھیڑیوں کا کام اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرنا تھا اور دشمن بھیڑیوں سے لڑنا اور انکی بھیڑوں کو بھنبھوڑنا تھا ۔ جب حفاظت کرنے والے بھیڑئے دشمن بھیڑیوں سے لڑنے کے قابل نہیں رہتے تھے تو وہ اپنی ہی بھیڑوں کو بھنبھوڑنا شروع کر دیتے تھے ۔ جب بھی کسی بھیڑ نے بھیڑوں کو بھیڑئے بننے کو کہا تو اس بھیڑ کو بھیڑ نما بھیڑیوں نے ماردیا ۔ ایک وقت آیا جب کچھ بھیڑیوں نے بھیڑوں کے بھیس میں بھیڑوں کو آپس میں بھیڑوں کی طرح رہنا اور دشمن کیساتھ بھیڑیوں کی طرح لڑنا سکھانا شروع کردیا ۔ اب بھیڑیوں کے لئے بھیڑوں کے بھیس اپنی ہی بھیڑوں کو مزید بھیڑیں بنا کر بھنبھوڑنا نسبتا زیادہ آسان ہوگیا ۔ بھیڑیوں نے اپنی بھیڑوں کو مزید بھنبھوڑنا شروع کر دیا اور جب چاہا دشمن کے مقابلے کیلئے بھیڑئے بنا لیا ۔ بڑے ہی عرصے تک بھیڑیوں نے اپنی بھیڑوں کو بھنبھوڑ لیا اور وہ وقت آگیا کے بھیڑیوں کیلئے بھیڑوں کے روپ میں رہتے ہوئے اپنی بھیڑوں کو مزید بھنبھوڑنا ممکن نہیں رہا ۔ اب بھیڑیں خود سے ہی بھیڑئے بننا شروع ہوگئی ہیں مگر مسئلہ یہ کے انہیں اپنے بھیڑئے بننے کا تو افسوس تک نہیں مگر دوسری بھیڑوں کے بھیڑئے بننے پر دکھ ضرور ہوا کرتا ہے ۔ اس دکھ کا اظہار وہ بھیڑ کی کھال پہن کر اور بار بار بھیڑ والی آوازیں نکال کر کیا کرتے ہیں ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

مجھے بھیڑ سمجھو ظالمو اور بھیڑئے نا بنو ۔


پبلشڈ اون بیس بارہ ۔ مارچ پانچ ۔ ایٹ اردو بلاگر ۔

1 comments:

کائناتِ تخیل said...

یہ عین حقیقت ہے لیکن بھیڑ کبھی بھیڑیا نہیں بن سکتی یہ ایک بھیڑ کے اندر کا وہ یقین ہے جسے بھیڑیا کبھی نہیں جان سکتا وہ صرف اپنے آپ کو مزید گینگ ریپ سے بچانے کے لیے بھیڑیے کا لبادہ ضرور اوڑھ لیتی ہے لیکن صرف ان کے سامنے جو اس سے ناواقف ہوں ،وہ اپنے "گلّے " میں صرف ایک معمولی سی عام بھیڑ ہی ہوتی ہے جو ہر پل بھنبھوڑی تو جا رہی ہوتی ہے لیکن اُف تک نہیں کر سکتی کہ اس حصار کے باہر انجان بھیڑیے اس کی تاک میں ہوتے ہیں،اپنے بھیڑیے کم از کم اسے بھیڑ تو سمجھتے ہیں پاہر تو اسے اتنی بے رحمی سے چیرا پھاڑا جاتا ہے کہ نہ وہ بھیڑ رہتی ہے اور نہ بھیڑیا بس ایک سانس کا رشتہ ہے جو اسے رواں دواں رکھتا ہے- صرف آخری ایک بات سے معزرت کہ "طالم کے پاس سمجھ ہی تو نہیں ہوتی " اور یہ بات کوئی بھی بھیڑ جتنی جلد جان لے اتنی جلد وہ خود ترسی اور احساس ِزیاں سے باہر نکل آتی ہے

Post a Comment