Wednesday, January 11, 2012

آمریت اور جمہوریت ۔


جب اخلاقی آمریت کا ایک دور اچھا گزر جائے تو لوگ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کے آمریت چاہے جیسی بھی ہو اور کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہو اس میں بہتری ہی ہوتی ہے ۔ یہ بات دنیا نے تسلیم کرلی ہے کے جمہوریت کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اس کے نتائج بھیانک ہی نکلتے ہیں ۔ جو آج ہم سب بھگت رہے ہیں ۔ ایک نئی اخلاقی آمریت اور کچھ عرصے کو اس کا تسلسل ہی ایک نئی اخلاقی جمہوریت کو جنم دیتا اور پروان چڑھاتا ہے ۔ اور جب اخلاقی جمہوریت کا ایک دور اچھا گزر جائے تو لوگ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کے جمہوریت چاہے جیسی بھی ہو اور کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہو اس میں بہتری ہی ہوتی ہے ۔ یہ بات دنیا نے تسلیم کرلی ہے کے آمریت کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اس کے نتائج بھیانک ہی نکلتے ہیں ۔ جو آج ہم سب بھگت رہے ہیں ۔

یہی اخلاقی جمہوریت وقت گزرنے کے ساتھ غیر اخلاقی ہوتی چلی جاتی ہے ۔ سائیکلز اس وقت شروع ہو جاتے ہیں جب ایک غیر اخلاقی جمہوریت کو ایک غیر اخلاقی آمریت ریپلیس کرتی ہے اور یہ غیر اخلاقی آمریت ایک مزید غیر اخلاقی جمہوریت سے ریپلیس ہو جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ ختم ہونے کے بعد ایک نئی اخلاقی آمریت کے آ جانے پر دوبارا سے شروع ہو جایا کرتا ہے ۔ یہ دنیا پہلی دفعہ ایسے دور سے گزر رہی ہے جب ایک نئی اخلاقی آمریت کے آ جانے کے امکانات بالکل ہی ختم ہو گئے ہیں ۔ اب تو بس غیر اخلاقی ہی چلے گی بھلے ہی وہ غیر اخلاقی جمہوری آمریت ہو یا وہ غیر اخلاقی آمریتی جمہوریت ہو کیونکے غیر اخلاقی جمہوریت بھی آمریتی جمہوریت بن سکتی ہے اور غیر اخلاقی آمریت بھی جمہوری آمریت بن سکتی ہے ۔

آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے ۔ ضرور مطلع کریں، بہت مہربانی ہوگی آپکی ۔

غیر اخلاقی آمریت ہی جمہوری آمریت ہوتے ہوئے جمہوریت کہلا سکتی ہے ۔ جبکے غیر اخلاقی جمہوریت نے آمریتی جمہوریت بن بھی آمریت ہی کہلوانا ہوتا ہے ۔

2 comments:

naghmasehar said...

جناب میری بہ مجبوری ہے کہ میں آپ کی تحریر پڑھ تو لیتی ہوں پر سمجھنا میرے لئے مشکل ہے بہ بات میں نے پہلے بھی کہی تھی آپ کے بلاگ پر تبصرہ کرتے ہوئے۔ کیونکہ آپ نے میرے فیس بک کے کمینٹ پر یہ بلاگ لکھا ہے اور آپ کا حکم کہ میں آپ کے بلاگ پر حاضری دوں میرے لئے یہ مناسب نہیں کہ میں آپ کے حکم سے روگردانی کروں ۔ حاضری ہو ہی گئی ہے تو جاں کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ نظام جمہوریت میں حکمرانی ہمشہ عوام کی رائے سے ہوتی ہے اور حکمومت ووٹ کے ذریعے آتی ہے اور اسی ووٹ کے ذریعے جاتی ہے جبکہ ڈکٹیٹر شپ ہمیشہ بندوق اور طاقت کے زور پر آتی ہے اور جاتی ہے اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ آپ عوام کے ساتھ ہیں یا طاقت ور بندوقچی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ م

Faisal Nasir said...

یہ علامت ہے اس بات کی جس نظام کو ہم مقدس سمجھ کر پوج رہے ہیں
وہ درحقیقت نظام ہی نہیں ہے بلکہ ہماری غلامی کا طوق ہے

پاکستان میں غلامی لیڈران و جاگیرداران کو جمہوریت کہا جاتا ہے

Post a Comment